اس ناولٹ میں مستنصر حسین تارڑ کا قلم کسی بگولے کی طرح ماضی، حال اور مستقبل میں سرگرداں ہے۔ روپ بہروپ میں ہماری ساری پرانی اورنئی تاریخ، باری باری کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ دریائے خون ہے جس میں ہم ڈو بتے اور ابھرتے ہیں اور نومیدی کے کسی ساحل پر جا نکلتے ہیں۔
ہمارا ماضی، پیر تسمہ پا کی طرح، اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا ۔ ہماری ستر سالہ آزادی کی روداد، جو کہیں کا بوسہے کہیں فریاد، ہم اس سے، جسےیاد بھی نہیں رکھنا چاہتے اور بھلا بھی نہیں سکتے، آباد بھی ہیں برباد بھی۔
،خوں چکاں اور ناانصافی پر بھی یہ ہماری کہانی ہے۔ کم زوروں کو ستانے ،قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے قصے دہشت گردی کے واقعات جو پشاور میں سکول کے بچوں اور استانیوں کے قتل عام پر ختم ہوتے ہیں ۔ ہم لوریاں سنا کر اپنے ضمیر کو سلانا چاہتے ہیںلیکن یہ لوریاں وقتاََفوقتاََ عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔ یہ فردِ جرم ہے جو مستنصر نے دکھی ہو کر لکھی ہے۔ یہ ناولت آئینہ ہے۔ اس میں گر اپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظر آتی ہے تو سوچنا چاہیے کہ ہمیں اپنا آپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔ آئینہ اٹھا کر پھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔
محمد سلیم الرحمٰن
Title: "Roop Behroop"
Author: Mustansar Hussain Tarar
Subject: Novelette, Fiction
ISBN: 969353316X
Year: 2020
Language: Urdu
Number of Pages: 182