"Roop Behroop" - Mustansar Hussain Tarar
"Roop Behroop" - Mustansar Hussain Tarar
Couldn't load pickup availability
اس ناولٹ میں مستنصر حسین تارڑ کا قلم کسی بگولے کی طرح ماضی، حال اور مستقبل میں سرگرداں ہے۔ روپ بہروپ میں ہماری ساری پرانی اورنئی تاریخ، باری باری کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ دریائے خون ہے جس میں ہم ڈو بتے اور ابھرتے ہیں اور نومیدی کے کسی ساحل پر جا نکلتے ہیں۔
ہمارا ماضی، پیر تسمہ پا کی طرح، اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا ۔ ہماری ستر سالہ آزادی کی روداد، جو کہیں کا بوسہے کہیں فریاد، ہم اس سے، جسےیاد بھی نہیں رکھنا چاہتے اور بھلا بھی نہیں سکتے، آباد بھی ہیں برباد بھی۔
،خوں چکاں اور ناانصافی پر بھی یہ ہماری کہانی ہے۔ کم زوروں کو ستانے ،قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے قصے دہشت گردی کے واقعات جو پشاور میں سکول کے بچوں اور استانیوں کے قتل عام پر ختم ہوتے ہیں ۔ ہم لوریاں سنا کر اپنے ضمیر کو سلانا چاہتے ہیںلیکن یہ لوریاں وقتاََفوقتاََ عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔ یہ فردِ جرم ہے جو مستنصر نے دکھی ہو کر لکھی ہے۔ یہ ناولت آئینہ ہے۔ اس میں گر اپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظر آتی ہے تو سوچنا چاہیے کہ ہمیں اپنا آپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔ آئینہ اٹھا کر پھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔
محمد سلیم الرحمٰن
Title: "Roop Behroop"
Author: Mustansar Hussain Tarar
Subject: Novelette, Fiction
ISBN: 969353316X
Year: 2020
Language: Urdu
Number of Pages: 182









روپ بہروپ اپنے آپ میں ایک بہروپ کہانی ہے۔۔۔۔ نور بی بی اور اس کا زرد گلاب۔۔۔۔ انسان امید کے سہارے ہی تو زندہ ہیں۔۔۔ اگر یہ بھی نہ رہے۔۔۔ کسی سے خیالوں میں بھی خوش ہونے کا حق چھین لیا جائے تو بندہ کہاں جائے۔۔۔۔
پھر ساجد، روپ بہروپ کی گُھپا، جونئیر ہیملٹ۔۔۔ سب ہی زندگی کے اترتے چڑھتے رنگوں پر حیران ہیں۔۔۔ کوئی نالاں ہیں تو کوئی خوفزدہ۔۔۔ اور پھر وہ بے جان سی دُرگا دیوی کا کردار خاصا دلچسپ ہے۔۔۔ تحریر میں جس طرح سے استعاروں اور تشبیہات کے ساتھ حقیقی واقعات کی منظر کشی کی گئ ہے۔۔ وہ بہترین ہے۔۔۔۔ البتہ مجھے اس ناولٹ میں ایک جگہ ذرا سا عِلمی اختلاف ہے۔۔۔ میں نے روپ بہروپ کا مطالعہ خلافِ معمول کافی وقت میں مکمل کیا اور اسکی وجہ سیالکوٹ کا وہ دل خراش سانحہ تھا جس نے مجھے رک کر حال ہی میں ہونے والی اس ٹریجڈی پر دکھ منانے اور فکرمند ہونے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔ کتنے افسوس کی بات ہے آج سے ستّر دہائیاں پہلے چب مُلک پاؤں پاؤں کھڑا تھا۔۔۔ تب بھی خون و کشت کے واقعات جاری تھے۔۔۔ اور اب
وہ کہتے ہیں کہ اب عوام میں شعور آگیا ہے؟ کیا واقعی۔۔؟؟ ہم ابھی بھی فرقوں میں، ذات پاٹ میں بٹے ہوئے ہیں۔۔۔ اس شعور نے ہم سے انسانیت چھین لی ہے۔۔۔
اگر ہم لوگ باشعور ہیں تو پھر بے حس اور ناہنجار کون لوگ ہیں ۔۔۔ وہ جو بغیر کسی لحاظ کے ظلم کیے جاتے ہیں؟ یا وہ جو اس ظلم کو ہوتا دیکھ کر خاموشی سے اپنے کیمروں میں ریکارڈ کرتے ہیں؟؟
بہر حال، مستنصر حسین تارڑ صاحب میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک ہیں۔۔۔۔ اور انہوں نے " ادب برائے زندگی" کیلئے لکھ کر ایک بار پھر کمال کیا ہے ۔۔۔
مزید برآں، اس کتاب کی کوالٹی زبردست ہے۔۔۔
I have spend time with this book
It’s a great book for life also support your mindset