کتاب عمدہ ہے مگر اس کی نثر حسن معراج کی "ریل کی سیٹی" کی یاد دلاتی ہے۔ وہ بھی تقریبا انہی شہروں سے گزرے، مختلف لوگوں سے ملے، کہانیاں سنیں اور بعد ازاں ہمیں سنائیں۔ فرق ہے تو کہانیوں کا، محمد حسن نے تقسیم کی کہانیاں لکھیں اور عرفان جاوید خاکے بنتے رہے جن میں دلچسپ واقعات، چٹکلے اور تھوڑی خود بیتی بھی جگہ جگہ موجود ہے۔ شروعات کے چند خاکے کوئی بہت عمدہ نہیں ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں سے سنے ہوئے اور مختلف کتابوں میں درج واقعات کو واجبی سے انداز میں ایک کے بعد ایک جوڑ دیا اور لیجیے ایک خاکہ ہوگیا۔ مگر بعد کے خاکوں میں نثر رواں اور لطیف ہوتی جاتی ہے۔ اکثر جگہ جذباتیت اس قدر موجود ہے کہ لوگوں کی کمیاں بھی خوبیاں دکھائی پڑتی ہیں جو مصنف کی ان سے عقیدت کا حال بتلاتی ہیں۔ انہی لوگوں کے خاکے کوئی اور لکھتا تو یقینا ہمیں دوسرا رخ بھی پڑھنے کو ملتا۔