Mein Multan Hoon - Shakir Hussain Shakir, Zameer Hashmi
Mein Multan Hoon - Shakir Hussain Shakir, Zameer Hashmi
اس کتاب میں بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن پر آپ پہلی مرتبہ بہت کچھ پڑھیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں ملتان پر ملتان ٹی ہاؤس کے پلیٹ فارم سے بہت شاندار کام ہوا جو ’’مقالاتِ ملتان‘‘ کی شکل میں محفوظ ہو چکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ملتان پر نت نئے انداز سے کام ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بھی ملتان کی تاریخ میں بہت سے ایسے گوشے موجود ہیں جن پر کام کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ کتاب ایک طرف آپ کو آثارِ قدیمہ کی طرف لے کر جائے گی تو دوسری جانب مَیں نے کوشش کی ہے کہ اس کا اندازِ نگارش ایسا ہو کہ آپ کو پڑھتے ہوئے لگے کہ آپ ملتان کی سیر کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں ملتان کے آثارِ قدیمہ کے حوالے سے تمام اہم جگہوں کو شامل کیا ہے اور اس مَیں اس میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کے بارے میں پڑھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مَیں نے ملتان کے تاریخی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے باغات، دروازے، مزارات اور دیگر تاریخی مقامات کو اپنے قلم کے ذریعے محفوظ کر لیا ہے جن کی تصاویر ضمیر ہاشمی صاحب نے بہت ہی خوبصورت انداز میں تخلیق کی ہیں۔
اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ کو اس میں بہت سے اولیائے کرام کی سوانح حیات پہلی مرتبہ پڑھنے کو ملیں گی کہ گزشتہ چار عشروں میں ملتان کے اولیائے کرام پر جو کتب شائع ہوئیں ان میں بہت سارے اولیائے کرام کی سوانح موجود نہیں تھی۔ اس سلسلے میں اولاد علی گیلانی کی کتاب ’’اولیائے ملتان‘‘ سے مَیں نے یوں استفادہ کیا کہ وہ بزرگ جن کا ذکر اب تاریخِ ملتان کی کسی کتاب میں نہیں ملتا مَیں نے اُن اولیائے کرام کے ابواب کو شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر زاہد علی واسطی جب روزنامہ نوائے وقت ملتان کے ’’روہی رنگ ایڈیشن‘‘ میں ’’دیکھ لیا ملتان‘‘ کے نام سے قسط وار کتاب لکھ رہے تھے تو پڑھنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ ہر وقت سرکاری ملازمت میں مصروف رہنے والے ملتان کی محبت میں ایک شاندار تاریخ لکھ رہے ہیں۔ وہ اقساط بعد میں ’’دیکھ لیا ملتان‘‘ کی شکل میں کتابی صورت میں شائع ہوئیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو گئے۔ ان کے انتقال کے بعد ’’دیکھ لیا ملتان‘‘ کا نام تبدیل کر کے پبلشر نے نئی کتاب شائع کی تو وہ کتاب بھی آج کل مارکیٹ سے غائب ہے۔ جن دنوں میری کتاب ’’ملتان عکس و تحریر‘‘ شائع ہوئی اُنہی دنوں نامور سفرنامہ نگار، دانشور اور تاریخ دان محمد داؤد طاہر کی کتاب ’’ارمغانِ ملتان‘‘ بھی منظرِ عام پر آئی۔ انہوں نے بھی اپنی کتاب کے چند ابواب میں آثارِ قدیمہ پر قلم اٹھایا لیکن بہت سے آثارِ قدیمہ ایسے تھے جن کو مضمون کی صورت محفوظ کرنا ضروری تھا۔ سو اس کتاب کی شکل میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم آپ کو ملتان قدیم و جدید کی سیر تصاویر اور تحریر کے ذریعے کروا دیں۔ اگرچہ ابھی بھی بہت سی عمارتیں اور ادارے ایسے ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے وہ موضوعات ہم آنے والے مؤرخین پر چھوڑتے ہیں تاکہ وہ اپنے انداز سے ملتان کی تاریخ، ثقافت، ادب، آثار پر روشنی ڈال سکیں۔
یہ کتاب کبھی منظرِ عام پر نہ آتی اگر ضمیر ہاشمی ملتان پر تصاویر نہ بناتے اور برادرم افضال احمد اس کو اتنے خوبصورت انداز سے شائع کرنے کی حامی نہ بھرتے۔ اس کے ساتھ مؤرخینِ ملتان کا بھی شکریہ جنہوں نے ملتان کی محبت میں اپنے اپنے دور میں اس کی تاریخ لکھی جو کتابوں کی صورت میں محفوظ ہوئی جو آج بھی ہمارے لیے کسی اثاثے سے کم نہیں۔ اگر مؤرخین ملتان پر قلم نہ اُٹھاتے تو شاید ملتان کے بہت سے پہلو ہم سب سے پوشیدہ رہتے۔ میرا ملتان اب آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کو پڑھیں۔ اس کی خوشبو کو محسوس کریں۔ اس کے اندازِ نگارش میں اگر آپ کو کوئی چاشنی محسوس ہو تو جان لیجئے گا یہ سب کچھ ضمیر ہاشمی کے اصرار پر وجود میں آئی۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے ملتان کے ساتھ ایک نئے انداز سے محبت کا اظہار کیا ہے جس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ آپ کو یہاں کے باسی بھی بھاگتے دوڑتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ یہ شہر ہمیں آباد ہوا اچھا لگتا ہے۔ آئیے آنے والے صفحات میں اس شہر کی سیر کریں جو آپ کو دونوں ہاتھ پھیلائے کہہ رہا ہے:
مَیں ملتان ہوں!
Title: Mein Multan Hoon (Asaar-e-Qadeema o Sair-e-Multan)
Author: Shakir Hussain Shakir
Sketches: Zameer Hashmi
Subject: History, Multan
ISBN: 9693536088
Language: Urdu
Number of Pages: 379
Year of Publication: 2024