Band Darwaza - Dr. Muhammad Humayun
Band Darwaza - Dr. Muhammad Humayun
Couldn't load pickup availability
Title: Band Darwaza
Author: Dr. Muhammad Humayun
Subject: Fiction, Short Stories
ISBN: 9693536223
Language: Urdu
Number of Pages: 256
Year of Publication: 2025




Band Darwaza by Dr. Humayun is a compelling collection of twelve short stories that offer a profound exploration of religious, political, and social themes. Each story is deeply layered, delivering strong messages about the values and challenges of modern society. Dr. Humayun expertly blends complex subjects with engaging storytelling, creating narratives that are both thought-provoking and accessible. The stories tackle a wide range of issues, from the tension between tradition and modernity to the moral dilemmas that individuals face in their everyday lives, urging readers to reflect on the world around them.
The book is beautifully written, combining classic and modern language to create a unique narrative style that appeals to a diverse audience. Dr. Humayun's seamless integration of traditional prose with contemporary expression adds a special charm to the collection, making it timeless and relatable. Through these stories, he masterfully highlights societal issues with sensitivity and insight, inviting readers to question the status quo. Band Darwaza is a must-read for those seeking a thought-provoking literary work that offers both intellectual depth and artistic beauty.
The publication of Band Darwaza by Sange Meel Publications deserves special mention. Known for their excellence in publishing, Sange Meel has once again delivered a beautifully produced book, with careful attention to detail in both the quality of the print and the presentation. Well done!!!!
ڈاکٹر ہمایوں کی کتاب ’’بند دروازہ‘‘، جو سنگ میل پبلیکیشنز سے شائع ہوئی ہے، اردو افسانے کی دنیا میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ مجموعہ محض کہانیوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ معاصر سماجی، سیاسی اور تہذیبی تضادات کا آئینہ ہے جو قاری کو نہ صرف جھنجھوڑتا ہے بلکہ سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔
اس کتاب کا نمایاں افسانہ ’’کھمبا‘‘، جو آرام باغ کراچی کے پس منظر میں رقم کیا گیا ہے، ایک گہرے استعارے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ کھمبا، جو بظاہر ایک سادہ سا بجلی کا ستون ہے، دراصل کراچی کے ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں روزمرہ کی زندگی کا ہجوم، بے حسی اور سیاست کی دھند ایک دوسرے میں گھل چکی ہے۔ ڈاکٹر ہمایوں نے اس کہانی میں نہایت باریکی سے موجودہ سیاسی نظام کی بوسیدگی، طبقاتی ناانصافی، اور طاقت کے ارتکاز کی تصویر کشی کی ہے۔
کھمبا محض ایک جامد شے نہیں، بلکہ کہانی میں ایک خاموش گواہ بن کر ابھرتا ہے جو برسوں سے ظلم، احتجاج، شورش، اور امید کے مناظر دیکھتا آیا ہے۔ ڈاکٹر ہمایوں کا قلم یہاں ایک مؤرخ کا کام کرتا ہے، جو ایک غیر جانبدار چیز کی زبان سے سیاسی تباہ کاریوں اور عام آدمی کی بے بسی کو بیان کرتا ہے۔
افسانے کی سب سے بڑی خوبی اس کی علامتی گہرائی ہے۔ کھمبا وہ استعارہ ہے جو ایک طرف ریاستی طاقت اور اس کے جمود کی نمائندگی کرتا ہے، اور دوسری طرف وہ ان دیکھے خوابوں اور دبے ہوئے جذبات کا بھی غماز ہے جو عوام کے دلوں میں پلتے ہیں۔
ڈاکٹر ہمایوں کی نثر سادہ مگر گہرے مفہوم کی حامل ہے۔ وہ پیچیدہ موضوعات کو سادگی سے بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کے کردار جیتے جاگتے انسان ہیں، جن کی بولی، حرکات، اور خیالات ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں کی یاد دلاتے ہیں۔
’’بند دروازہ‘‘ نہ صرف ایک کامیاب افسانوی مجموعہ ہے بلکہ ہمارے عہد کے اجتماعی شعور کی بازگشت بھی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہے جو ادب کو محض تفریح نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کا آلہ سمجھتے ہیں
سنگ میل پبلیکیشنز نے ’’بند دروازہ‘‘ جیسے اہم اور بامعنی افسانوی مجموعے کو شائع کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف ادبی معیار کا خیال رکھتے ہیں بلکہ ایسے موضوعات اور مصنفین کو بھی فروغ دیتے ہیں جو سماجی شعور بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو ادب میں سنگ میل کا کردار ہمیشہ قابلِ تحسین رہا ہے—چاہے وہ کلاسیکی ادب کی طباعت ہو یا معاصر لکھاریوں کی تازہ تخلیقات کو منظرِ عام پر لانا ہو، سنگ میل نے ہر دور میں معیار اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ ’’بند دروازہ‘‘ کی اشاعت ان کے اسی وژن کا تسلسل ہے۔
دروازے بند ضرور ہیں، مگر ڈاکٹر ہمایوں کی تحریر ان بند دروازوں کے پیچھے چھپے سچ کو روشنی میں لانے کی ایک کوشش ہے – ایک جرأت مندانہ، حساس اور فنکارانہ کوشش۔
برادرم ڈاکٹر محمد ہمایوں کا نیا افسانوی مجموعہ۔
اس کتاب میں بارہ افسانے ہیں۔ میں ان چند خوش قسمت لوگوں میں ہوں، جنہیں یہ کتاب تحفتہ" بھیجی گئی۔ مصنف کی اس محبت کا میں ہمیشہ ہی سے قدردان رہا ہوں اور اس میں الحمدللہ وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔
کتاب کی طباعت انہتائی اعلی معیار کی ہے۔ ہمایوں کی غیر معمولی تحاریر یقینا" اسی قابل ہیں کہ انہیں اس سے بھی زیادہ دیدہ زیب انداز میں پیش کیا جائے۔ سنگِ میل پبلشرز شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے یہ کام انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ میرے خیال میں انہیں اپنی اس پیشکش پر، بجا طور پر فخر کرنا چاہئیے۔
میں نے کتاب کا آغاز سرورق والے افسانے ہی سے کیا۔
افسانے کا انداز بیان ہمایوں کی مخصوص شستہ زبان لئیے ہوئے ہے۔ موتیوں کی طرح پروئے ہوئے فقرے اور دل خوش کن تراکیب۔ پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن میں قرونِ وسطیٰ کے بغداد شہر کی گلیاں اور بازار سج جاتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو انہی لیل و نہار میں گھومتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔
افسانے کی بنیاد زندگی کی ظاہریت اور موت کی اٹل حقانیت کے گرد گھومتی ہے۔ اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم واقعی کسی simulation میں تو نہیں رہ رہے؟ اس عالم رنگ و بو میں سچ کیا ہے اور فریب کیا؟ حقیقت کیا ہے اور دھوکہ کیا؟ اس مادی دنیا کی، جس میں ہمارے وقت کو ایک لمبے سفر کے بیچ ایک درخت کے نیچے مختصر سے قیام / ترویحے کی تمثیل سے بیان کیا گیا ہے، اس سے نکلنے کا جو بند دروازہ ہے، اس کے پیچھے کیا ہے؟
اس دروازے سے نکلنا تو یقینا" ایک اٹل سچ ہے۔ اور غالبا" یہی ایک وہ چیز ہے جس کے بارے میں کسی بھی ذی روح کو کوئی بھی غیر یقینی نہیں ہے۔
اس ادق فلسفیانہ گتھی کو ہمایوں نے انتہائی چابک دستی سے بیس صفحات میں سمیٹا ہے۔ اور اس دلچسپ پیرائے میں، کہ اگر میرے بس میں ہو، تو اس کو ایم اے اردو کے نصاب میں شامل کر دوں۔
مجھے یقین ہے کہ باقی کے گیارہ افسانے بھی اسی معیار کے ہوں گے۔ ہمایوں نے اردو زبان پر جو احسان کیا ہے وہ یہ کہ انہوں نے ادبی معیار کو بلند رکھا، اور موضوع سخن وہ سوال ہیں جن کے بارے میں ہر ذی شعور انسان لامحالہ سوچتا ہے۔ اگر آپ بھی ان لوگوں میں آتے ہیں اور زبان کے چٹخارے سے بھی محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ڈاکٹر صاحب کی کہانیاں ضرور پڑھنی چاہئیں۔
کتاب پڑھ کر یہ بھی یقین ہو جاتا ہے کہ الحمدللہ، آنے والی نسل اردو زبان کی ترویج و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔