Rail Ki Seeti
Rail Ki Seeti
کہنے کو تو یہ ریل کی پٹڑی سے جڑی تقسیم کی وہ کہانیاں ہیں، جو خالی ٹکٹ گھروں اور ویران پلیٹ فارموں پر سننے والوں کی منتظر ہیں مگر حقیقت میں یہ ہر اُس دل کی آپ بیتی ہے جو کہیں نہ کہیں بٹ گیا ہے۔ اس انسان کی مانند جس کا جسم آنے والے کل کے تعاقب میں ہے اور روح، گزرے ہوئے کل کے طلسم میں ہے۔ وک داستانوں، اخباری تراشوں، سینہ گزٹوں اور وقائع نویسوں کے علاوہ ان افسانوں کو کہنے والے روزمرہ معمولات میں چلتے پھرتے لوگ بھی شامل ہیں، ریل کی سیٹی اس لئے پڑھئے۔۔۔ کہ یہ سٹیشن ماسٹر کی وہ آخری جھنڈی ہے جس کے بعد سگنلنگ کا سارا نظام بدلا جائے گا۔۔۔ یہ وہ آخری بھاپ کا انجن ہے جس کے بعد الیکٹرک ٹرانسمیشن، سیٹی کی کوک، کو ایسے کھا جائے گی جیسے، ای میل، ڈاک بابو کو۔۔۔
Title: Rail Ki SeetiAuthor: Muhammad Hassan Miraj
Subject: Urdu Literature, Travel, Safarnama
ISBN: 9693529499
Year: 2016
Language: Urdu
Number of Pages: 222
بہترین اسلوب میں لکھی گئی منفرد کتاب ۔
Book was nicely packed and delivered on time.
تاریخ کی کچھ کہانیوں کو پڑھتے ہوئے آپ خود کو وقت کی قید سے آزاد محسوس کرتے ہیں۔ محمد حسن معراج کی یہ کتاب "ریل کی سیٹی" میرے لیے ایک ایسی ہی کتاب تھی۔ ٦٩ ابواب پہ مشتمل اس سفرنامے میں مصنف راوپنڈی سے اُچ شریف تک کیے گئے سفر کی داستان کہیں کہانی، کہیں انشائیے، کہیں آپ بیتی اور کہیں رپورتاژ کی صورت میں بیان کرتا ہے، جس میں برصغیر کی تاریخ، ثقافت اور روایات کو نثر میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ تقریباً ہر باب میں ہی تقسیم کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اس دردناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ؛ "جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری؟" ایسی نثر اردو میں لکھنا ایک انتہائی مشکل کام ہے جس میں آئرنی، ناسٹیلجیا، طنز، روانی، ولولہ خیزی، جدّت و روایت اور اقدار و اقتدار کے کئی حوالے اور ان کی زندگی و موت کے امتزاج کا بکثرت استعمال کیا گیا ہو مگر پھر بھی وہ اپنے قارئین کو معنی و بصیرت کی دولت سے مالامال کرنے کی سکت رکھتی ہو۔ اس کتاب کو پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ پاکستان کے بہت سے شہر، قصبے اور گاؤں جن کی تاریخ سے ہم ناآشنا ہیں، وہ اپنے اندر کئی داستانیں سموئے ہوئے ہیں، جنہیں پڑھ کر انسان خود کو ہر اس زمانے میں جیتا ہوا محسوس کرتا ہے جس کا ذکر مصنف نے کیا۔ جدت پسندی کے اس دور میں جہاں آج کا انسان اپنی تاریخ سے دور ہوتا جارہا ہے اور اب اس میں نہ تو اس تاریخ کو کھوجنے کی دلچسپی رہی ہے اور نہ اس کی مصروفیات اسے اس چیز اجازت دیتی ہیں کہ وہ نگری نگری جاکر اس جگہ کی تاریخ کے بکھرے ہوئے صفحات کو جوڑے اور ان پر سے ماضی کی گرد ہٹا سکے، وہیں حسن معراج صاحب نے اس بات کو غلط ثابت کرتے ہوئے اس کتاب کو لکھنے کی ایک بہت جرأت مندانہ اور کامیاب کوشش کی ہے۔ یوں تو ہر شہر کی تاریخ بہت دلچسپ تھی مگر یہاں شاید اپنے شہروں سے لگاؤ کی بدولت "لاہور، لائل پور، سمندری، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گوجرہ" کی تاریخ پہ لکھے گئے ابواب میرے پسندیدہ رہے!